موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر اثرات

محمد اسلم ندیم رانا موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر کام کرنے والی ایک تنظیم جرمن واچ کے مطابق پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا سامنا ہے۔ یہ جنوبی ایشائی ملک موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زيادہ متاثرہ ملکوں کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ ماحول پر نگاہ رکھنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جس طرح زمین کا ماحول بتدریج گرم ہو رہا ہے، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سن 2100 میں جنوبی ایشیائی ملکوں کے بعض حصے انسانی آبادیوں سے محروم ہو جائیں گے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی صحرائی پٹی آباد سبّی اور چولستان کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو درپیش ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ترقی پذیر ملکوں کی پوری مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے فضائی آلودگی اور کاربن کے اخراج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ نہ صرف ہمیں اس اخراج میں کمی کرنی ہے بلکہ قدرتی توازن کو بھی بحال کرنا ہے۔انہوں نے دنیا پر زور دیا تھا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان عمران کی مثال کی پیروی کریں جنہوں نے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا عزم کیا اور مزید کہا'برطانیہ میں درختوں کے نقصان کو نہ صرف روکنا ہے بلکہ درختوں اور بائیو ڈائورسٹی (حیاتیاتی تنوع) کو پہنچنے والے نقصان کا 2030 تک ازالہ بھی کرنا ہے۔ اس لیے ہم برطانیہ میں ملک کو خوبصورت بنانے اور سیلاب سے بچاؤ کو مزید مضوط کرنے کے لیے دس لاکھ درخت لگانے کے لیے پرعزم ہیں۔' ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان اور اس کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ عالمی ادارے جرمن واچ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ان ممالک میں شمار کیا ہے، جو ماحولیات سے بری طرح متاثر ہیں۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں واحد شخص عمران خان تھا جس نے اس طرف توجہ دی۔ماہرین کے مطابق پاکستان میں ماحولیاتی حوالے سے ماضی کی غیر دانشمندانہ پالیسیوں نے ملک میں اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ان کے مطابق عمران خان کی حکومت اس معاملے میں قدرے بہتر رہی ہے، عمران خان حکومت کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگوائے ۔اگر ان کے دعویٰ کے مطابق ایک ارب درخت نہ بھی لگے ہوں بلکہ اس کے آدھے بھی ہوں، تب بھی یہ بہت بہتر ہے۔ عمران حکومت اس کے علاوہ مزید دس ارب درخت لگانے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی ۔مذیدبراں ۔ پٹرول اور ڈیزل کی جگہ الیکٹرک کاریں درآمد کرنے کا فیصلہ بھی بہت بہتر تھا کئی ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی حدت کی وجہ سے ملک کے شمال میں پگھلتے ہوئے گلشیئر ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ ماہر ماحولیات ڈاکڑ پرویز امیر کا کہنا ہے پاکستان کو اس وقت چار بڑے خطرات کا سامنا ہے، ''گلشیئرز کا پگھلنا، کوئلے کا استعمال، اسموگ اور خشک سالی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''چولستان اور کئی ساحلی علاقوں سے نقل مکانی پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ اوماڑہ، پسنی، بدین، ٹھٹھہ، سجاول اور گوادر سمیت کئی علاقوں سے نقل مکانی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ملک کے کئی علاقے خشک سالی کے شکار بھی ہوئے ہیں۔ یہ عوامل فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔‘‘ جب ہم اسٹوڈنٹس تھے اس وقت پاکستان کی تمام شاہراہوں پر درخت ہی درخت تھے مگر ناعاقبت اندیش حکمرانوں اور بدعنوان سول ایڈمنسٹریشن نے ان سب کو بیچ دیا اور اس کی جگہ کوئی نیا درخت نہ لگوایا۔جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔اگر آج بھی ندی نالوں اور شاہراہوں پر درخت لگانے کے کام کا آغاز کردیا جائے تو آئندہ چند سالوں میں موسم میں تبدیلی آ سکتی ہے اور ملک میں بارشوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو سکتا ہے ۔

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.