ابو رفیع سید محمد احمد کاظمی
اللہ رب العزت نے اپنی ربوبیت الوہیت اور وحدانیت کو ہمیشہ مخفی رکھا، اور جب اس کو ظاہر کرنا چاہا تو مکمل اور منظم تدبیر کے ساتھ اس عظیم کائنات کو شرف تخلیق بخشا، جہاں جنات اور انسان سب کو رہنے کا موقع عطاء فرمایا۔ اپنی ربوبیت براہ راست نہیں ظاہر کی کیونکہ دیدار الٰہی کے عتاب کی تاب لانا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اللہ پاک نے اپنی ربوبیت کو ظاہر کرنا چاہا تو اپنے مظہر کو اس دنیا کے اندر بھیجا انسانیت کے پردے میں۔چاور اس رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اتنا شرف عظیمت بخشا کہ خود ہی "لو لاک کما خلقت الافلاک" فرماکر ثقلان وغلمات پر یہ آشکار کردیا کہ یہ اب کچھ جو تخلیق کیا گیا صرف اور صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دکھانے کے لئیے پیدا فرمایا۔ یہاں پر امام احمد رضا نے ترجمانی کی اور فرمایا:
زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
چنین و چناں تمہارے لئے ، بنے دو جہاں تمہارے لیے
اصالتِ کُل امامتِ کُل سیادتِ کُل امارتِ کُل
حکومتِ کُل ولایتِ کُل خدا کے یہاں تمہارے لیے
تمہاری چمک تمہاری دمک تمہاری جھلک تمہاری مہک
زمین و فلک سماک و سمک میں سکہ نشاں تمہارے لیے
اللہ پاک نے اس عظیم رسول کو سب سے آخر میں مبعوث فرمایا تاکہ تاکہ اس کے بعد پھر اس مسند پر کوئی نا آئے تا قیامت پھر اگر نام رہے گا تو اس پاک عظیم ہستی ہی کا رہے گا۔ اسی لئیے قرآن پاک میں علی الاعلان فرمایا:
سورۃ الأحزاب
آیت نمبر 40
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِكُمۡ وَلٰـكِنۡ رَّسُوۡلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيّٖنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
ترجمہ:
محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘ لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں ‘ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
اہل ایمان اس عقیدے کی ہمیشہ حفاظت کرتے آئے، چائے سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں اسود عنسی آیا تو قتل ہوا، مسلمہ کذاب آیا تو واصل جہنم ہوا. اس کے بعد جب بھی ختم نبوت پر کسی نے انگلی اٹھانے کا تصور بھی کیا تو اس کی انگلی ہی نہیں سر بھی دھڑ سے الگ کردیا گیا۔ جس کی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں۔
امت مسلمہ ایک اتحاد میں یک جسم ہوکر اپنا عروج بڑھاتی جارہی تھی مگر افسوس کسی کالی نظر کو ۔ کفر اور طاغوتی قوتوں کو یہ کہاں گوار گزرتا اس نے امت محمدیہ کے اندر اس عشق کو عقیدے کو ختم کرنے کے لئیے "فتنئہ قادیانیت" کو داخل کردیا۔ ہندوستان کی سرزمین سے غلام احمد نامی شخص جو کم وبیش 20بیماروں میں مبتلا تھا، اس کو کئی انجیکشن لگائے جاتے اور دماغی طور پر اس کو متذبذب کیا جاتا جس کے نتیجے میں کم۔وبیش 50 بیماروں کا وجود اس سے ثابت ہے۔ اس کو دماغی مرض بھی تھا ایسا مرض تھا جس کی تشخیص ڈاکٹرز نے ایسے کی کہ اس مرض میں انسان کسی بڑی چیز کا دعویٰ کرتا ہے پوزیشن اور عہدے کا اور ایسا ہی ہوا کہ اس بدبخت نے 11مراحل ہے کرتے ہوئے بالآخر خدا ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے خلاف علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ جیسی شخصیات۔ پیر مہر علی جیسی شخصیات اسی وقت میدان عمل میں آئیں تو امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی کیسے چپ رہتے لیکن ان کو امام اعظم کا فرمان یاد آگیا کہ جو شخص دعوی کرے نبوت کا اس سے دلیل مانگنا بھی کفر ہے۔ الغرض آپ نے اس ذلیل کے واصل جہنم ہونے کے بعد بتایا سب کو اور لکھا بھی۔ لیکن یہ فتنہ ختم نہیں ہوا چونکہ انگریز اس کو مکمل پال پوس رہے تھے تو پاکستان بننے کے فورا بعد ان جاسوسوں نے پاکستان کی سیاست کو (ہائی جیک) کرلیا، قائد اعظم جیسی شخصیات کو راتسے سے زہر دے کر ہٹادیا گیا اور پاکستان کو مکمل قادیانی ملک بنانے کے اپنے دیکھے جانے لگے۔ لیکن اس وقت قربان جاؤں لیاقت علی خان جیسے عظیم لیڈرز پر۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے لوگ، علامہ سید ابوالحسنات قادری جیسے لوگوں پر۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے علمائے کرام۔ جنہوں نے اس فتنے کے خلاف آواز اٹھائی اور قوم کو بیدار کیا۔ اس وقت پاکستان کے وزیر خارجہ ظفراللہ خان قادیانی اس فتنے کو پال رہے تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ نشریات اطلاعات پر بھی قادیانی لوگوں کو طعینات کردیا۔ پاک فوج کے اندر پلید قادیانیوں کو بھارتی کیا جانے لگا۔
*تحریک ختم نبوت 1953ء*
بالآخر جب علمائے کرام نے محسوس کیا کہ اب پاکستان اپنی نظریاتی ساکھ ہی کھو رہا ہے۔ لیاقت علی خان جیسے راہنماؤں کو قتل کیا جارہا ہے۔ ملک کا وزیر اعظم ناظم الدین جیسے غدار آچکے ہیں۔ فوج کے اندر جنرل عاصم جیسے ڈاکو بیٹھے ہیں۔ اور حکومت کے اندر اسکندر مرزا جیسے ختم نبوت کے غدار بیٹھے ہیں۔ تو علمائے کرام نے اس "قادیانی انقلاب" کا راستہ روکنے کی مکمل تگ ودو کی۔ اور باقاعدہ "تحریک ختم نبوت" چلائی۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ اور علماء شامل تھے۔ عوام اہلسنت ہر ہر شہر میں جلوس کی شکل اختیار کرکے "ختم نبوت زندہ باد" کے نعرے لگاتی کوئی احتجاج کی شکل میں تحریک چلاتی۔ اور علمائے کرام کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا "ختم نبوت پر جان بھی قربان" اس وقت ان تمام اکابرین اور علماء کے تین مطالبات تھے:
1__ ظفراللہ خان کو فی الفور وزارت خارجہ سے ہٹادیا جائے کیونکہ وہ سرے عام قادیانیت کی تبلیغ کررہا تھا،
2__ کوئی بھی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک ختم نبوت پر ایمان نا رکھے۔
3__ پاکستان میں حکومت اور بڑے عہدوں پر غیر مسلم نہیں آسکتا یہ قانون بنایا جائے۔
ان تین مطالبات پر جو نتیجے میں ضرورت پیش آئی وہ یہ تھی کہ:
1__ مسلمان کی تعریف کیا ہے
2__ قادیانیت کو اسلام سے خارج قرار دیا جائے
3__ ظفراللہ خان کو ہٹادیا جائے اور اہم عہدوں پر غیر مسلم کی تقرری پر پابندی لگائی جائے۔
یہ سارے وزراء اور حاکمان کو پیش کردئیے گئے اس وقت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ نے وفد کے ساتھ یہ مطالبات جا کر کراچی میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے سامنے پیش کئیے تو اس نے کہا ہم آٹے اور دال تک کو ترس جائیں گے امریکہ ہمیں کچھ نہیں دے گا۔ اس کے بعد علمائے کرام نے وہی تحریک ختم نبوت شروع کی۔ مولانا عبدالستار خان ابھی تحریک چلا ہی رہے تھے کہ سارے قائدین کو گرفتار کرلیا گیا۔ جس میں تمام مکاتب فکر کے بڑے بڑے علماء علامہ ابوالحسنات قادری صاحب، سید عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب۔ ماسٹر تاج الدین انصاری صاحب۔ مولانا عبد الحامد بدایونی صاحب اور کافی اکابرین وعلماء کو گرفتار کرلیا گیا۔ اور عوام کو اس وقت فوج پولیس کے حوالے چھوڑ دیا گیا۔ جو علماء گرفتار نا تھے ان کو مولانا خلیل، علامہ غوث ہزاروی، مولانا عبدالستار خان نیازی جیسے بہادر علماء نے جمع کرنا شروع کیا اور ایک بار پھر سے اسی زور سے شروع ہوئی۔ لیکن اس بار ہر ہر جگہ فوج اور پولیس تعینات تھی جس جگہ سے جلوس گزرتا کئی جنازے ببی ساتھ ملاتے جاتے کئی عنفوان شباب کے نوجوان اپنی سانسیں نعرہ ختم نبوت پر نچھاور کرتے جاتے۔ پاک فوج میں موجود قادیانی جنرل عاصم جیسے بدبخت لوگوں نے اسکندر مرزا سے مل کر خون کی ہولی کھیلنا شروع کی ہزاروں علماء کو شہید کیا اور عوام کو گرفتار کرکے جنگلوں میں چھوڑ دیا گیا۔ اور کئی ہزار کارکنان اور قائدین کو یا تو زنندہ درغور کردیا گیا بے نام ونشان اجتماعی قبروں میں یا غریق آب کردیا گیا یا ان کو آگ لگادی گئی زندہ جلا دیا گیا۔ سینکڑوں علماء پر مقدمات دائر کردئیے گئے اور مولانا مودودی جیسے غلامی کو سزائے موت تک کے آرڈر جاری ہوگئے۔ اس وقت آن رکارڈ بات ہے کہ ایک فقیر سا بندہ بھی گرفتار تھا جس کو گرفتار اسی وجہ سے کیا گیا کہ نعرہ لگا رہا تھا ختم نبوت زندہ باد پولیس نے پکڑ کر گاڑی میں ڈالا اس وقت بھی اس کی زبان پر وہی نعرہ جاری تھا۔ اس کو بولا گیا کہ اس کی سزا موت ہے لیکن اس نے اور تیزی لگانا شروع کردیا بالآخر اس کو عدالت میں پیش کیا گیا جج نے ایک سال کی سزا دی تو وہ درویش چلا کر نعرہ بلند کرنے لگا "ختم نبوت زندہ باد" اس کے بعد جج نے ایک سال اور بڑھادی اس نے پھر نعرہ لگایا تو جج نے مزید بڑھادی ۔ بالآخر یہی بنتا رہا تو جج نے آرڈر دیا اس کو اسی وقت باہر لے جا کر گولی مار دی جائے یہ سن کو وہ درویش خوشی سے چلا اٹھا "ختم نبوت پر جان بھی قربان ہے" جج نے بالآخر حکم دیا کہ اس کو رہا کرو اس کے بعد بھی اس نے نعرہ لگایا "ختم نبوت زندہ باد" جج نے آرڈر جاری کردیا یہ دیوانہ ہے اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
لاہور میں ایک جگہ جلوس نکلا تو اندھا دھند فائرنگ کردی گئی سینکڑوں شہادتیں ہوئیں لیکن ختم نبوت کے وہ نعرے جاری رہے۔ بالآخر جلوس اس ریڈ لائن تک پہنچ گیا جو پاک فوج نے لگائی تھی کہ اس سے آگے کوئی بڑھا تو گولی مار دی جائے گی۔ اس وقت ایک نوجوان آگے بڑھا اور جام شہادت نوش کرگیا۔ اسی کے بعد اس جیسا دوسرا آیا اس نے بھی اپنی جان قربان کردی۔ بعد میں پتہ چلا یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ اسی طرح کئی لاشیں یہاں برتی گئیں بالآخر سارے مل کر نکلے اور ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے والی عوام اہلسنت کو بےدردی سے قتل کردیا گیا۔ لاہور اور کراچی کی سڑکیں کئی مہینوں تک خون سے لت پت رہیں بالآخر طاقت کے زور پر تمام علمائے کرام کو گرفتار کرلیا گیا۔ سید ابوالحسنات۔ عطاء اللہ شاہ بخاری۔ ماسٹر تاج الدین۔ شیخ حسان الدین۔ مولانا احمد لاہوری۔ سید نورالحسن شاہ۔ مولانا لال حسین۔ مولانا محمد حیات۔ خواجہ قمرالدین سیالوی۔ مولانا عبدالستار خان نیازی۔ مولانا غلام غوث ہزاروی۔ مولانا خلیل احمد۔ مولانا کفایت حسین نائب امیر تحریک شیعہ تھے اور گرفتار ہوئے۔ مولانا مظفر علی شمسی شیعہ گرفتار ہوئے۔ کافی کو شہید کردیا گیا۔ عوام کا منتشر کیا گیا۔ ہزاروں اکابرین اور مجاہدین اپنی کا۔ نچھاور کرگئے۔ لیکن یہ تحریک بالآخر دب گئی۔
*"امام احمد نورانی علیہ الرحمہ اور تحریک ختم نبوت"*
نواسہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ۔ صاحبزادہ شاہ عبد العلیم صدیقی نوراللہ مرقدہ امام انقلاب بصیرت کے سمندر سیاست کے شہنشاہ افق پر روشن ستارے نے اس تحریک میں دوبارہ جام ڈالی۔ سرے مکاتب فکر کو جمع کرنا شروع کیا۔ اور قادیانی انقلاب کا راستہ روکنے کی کوششیں تیز کردیں۔ "تحریک ختم نبوت" کای ابتداء ہوئی اور اس کا سربراہ دیوبندی عالم دین مولانا یوسف لدھیانوی کو مقرر کردیا گیا۔ یہ تحریک اس قلندر کی قیادت میں چل رہی تھی جس کے بابا نے اپنی خلافت میں اسود عنسی، سجاعہ اور مسلمہ کذاب جیسے بدبختوں کو واصل جہنم کردیا تھا۔ ان کا ہی خون شامل تھا نا کسی کی پرواہ کی نا خوف قید وبند، مولانا محمد شفیع اوکاڑوی جیسے علماء علامہ عبد المصطفیٰ ہزاروی جیسے علماء کو الیکشن میں کھڑا کروایا اور الیکشن میں کئی سیٹیں حاصل کیں۔ مولانا مفتی محمود بھی موجود تھے۔ بالآخر وہی پرانے مطالبات پیش کردئیے گئے کہ قادیانیت کا خارج از اسلام قرار دیا جائے۔ لیکن اس بار کے جو حالات تھے وہ بھی کم نہ تھے خون آشام حالات ہوچکے تھے ہر طرف شہادتیں ہوئیں۔ لیکن علمائے حق اتحاد پر ڈھٹے رہے بالآخر قادیانیت جیسے فتنے کو 7ستمبر 1974ء کو قادیانیت کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی گئی۔ اور اس انقلاب کا راستہ مکمل روک دیا گیا۔ پھر 1984ء میں ایک بار پھر قادیانیوں نے مذہبی آزادی کی اپیل کی لیکن علمائے کرام نے اس وقت بھی ان کو دلائل دے کر ہرا دیا اور عدالت نے ان کی اپیل خارج کردی۔ کم وبیش 10ہزار قربانیوں کے بعد پاکستان کا انظام ان قادیانی پلید کتوں سے پاک ہوگیا۔
*"نورانی ڈاکٹرائن ماضی اور حال"*
جس وقت کرام نے تحریک چلائی تو اس وقت کے غدار ختم نبوت جسٹس منیر نے ایک گناؤنی سازش کی۔ جو بھی علامہ دین جس مسلک کا جیل میں آتا اس سے سوال کرتا مسلمان کی تعریف کیا ہے؟؟ وہ اپنے نظریات کے مطابق جواب دیتا اس طرح اس کمبخت نے علمائے کرام ک مختلف تعریفات کو ملا کر "منیر انکوائری کمیشن رپورٹ" شائع کردی اور کہا کہ اگر صرف قادیانیوں کو کافر قرار دیا جائے تو بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ ان میں سے ہر ایک مکتبہ فکر دوسرے کی تعریف کے مطابق کافر ٹھہرتا ہے۔ اسمبلی میں تقریر چل رہی تھی کہ اس نے چیلنج دے دی کہ آپ لوگ ایک متفقہ تعریف لے آئیں ان شاءاللہ تعالیٰ عزوجل اس پر عمل ہوگا۔ جمیعت علمائے پاکستان کے علماء (مولانا شجاعت علی) نے ترجمانی کرتے ہوئے چیلنج قبول کیا۔
سارے مکتبہ فکر کے علماء کو جمع کردیا گیا اور ایک متفقہ تعریف پر زور دیا گیا تاکہ قادیانیت کو کسی بھی طرح نکال دیا جائے ۔ اس پر سارے اختلافات عقائد نظریات کو دیکھنے سے پہلے دین کی اصل اور ماخذ قرآن پاک کی طرف رجوع کیا گیا اس کی چند آیات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تعریف کی گئی کہ:
*"مسلمان ہر وہ شخص ہے جو ضروریات دین اور قرآن وسنت پر یقین رکھتا ہو،اور حضور نبی اکرم علیہ السلام کو آخری نبی مانتا اور قرآن وسنت کی تعبیر جو سلف صالحین سے اجماعا منقول ہے صحیح جانتا ہو"۔*
اسی تعریف کو قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ اور پھر اس کو دیکھ آئین پاکستان کے باب:5، آرٹیکل:260 دفعہ:3 کے تحت مسلمان اور کافر کی تعریف شامل کردیا گئی۔
امام احمد نورانی نے اس وقت سیاسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے عظیم کارنہ انجام دیا۔ اور اس کے بعد گروپ وارانہ مواد میں کمی نظر آئی۔ کیونکہ جو مرتبہ اجماعی تعریف شائع کردی گئی اس کے مطابق کوئی فرقہ بنیادی طور پر کافر نہیں ٹھہرتا تھا۔ جس کے اندر کفر ہوگا وہ چائے کا جماعت کا ہو کافر ٹھہرے گا۔ اس پر اتفاق ہوا اور قادیانیت کو بالکل نامراد قرار دے دیا گیا۔ لیکن ان کو شک تھا کہ یہ لوگ گاؤں دیہاتوں میں حملہ آور یوں گے کیسے کی لالچ دے کر ان کو قادیانی بنادیں گے۔ تو آپ نے تبلیغ دین کے لئیے 8جماعتوں کے علاؤہ ایک جماعت بنائی اور فیصلہ کیا کہ یہ صرف اور صرف تبلیغ دین کا کام کرے گی اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاست ہم سنبھال لیں گے۔ لہذا "دعوت اسلامی" کی بنیاد رکھی اور اس طرح قادیانی لابیوں کا مکمل راستہ بند کردیا۔
مولانا شاہ احمد نورانی مذہبی علماء کا اتحاد چاہتے تھے ۔ اور پاکستان میں ایک اسلامی حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے جس پر انہوں نے پہلے جمیعت علمائے پاکستان کی بنیاد رکھی پھر متحدہ مجلس عمل بنائی گئی جس میں تمام مکاتب فکر نے حصہ لیا اور کافی سیٹیں حاصل کیں۔
اس ساری کوشش کے بعد ایک اور پھر سے امریکہ اور برطانیہ نے اسرائیل کے زریعے پاکستان میں قادیانیت کو مضبوط کرنا شروع کردیا۔ اور مشرف جیسے قادیانی جرنیلز آگئے جس نے پورے ملک میں فوجی طاقت کے بل بوتے پر قادیانیت لابیز کو شامل کردیا۔ علماء کو قتل کروادیا۔ آواز اٹھانے نہیں دیتا تھا کسی کو۔ اور پاکستان میں قادیانیت پھر جھنڈے گاڑنے لگی۔ علمائے کرام کے اندر پھر وہی پرانی بحث ومباحثہ شروع کروادیا گیا۔ ایک دوسر پر کفر کے فتوے آنا شروع ہوگئے۔ اور اس طرح پاکستان میں آج پھر سے 79-80٪ نظام مکمل قادیانیت کے حوالے ہے۔ آج اگر ہمارے اوپر فرض ہے تو وہی تعریف اور نورانی ڈاکٹرائن ہے۔ سب نے مل کر اس آئے ہوئے سیلاب اور فتنے کو روکنا ہے۔ مگر افسوس کہ آج دوسروں کو کیا ملاتے اپنوں کی ٹانگیں کھینچنے لگے پڑے ہیں۔ اگر پاکستان کو اس ناسور مرض سے بچانا ہے تو قادیانیت کے خلاف ایک پھر سے تحریک ختم نبوت چلانا ہوگی علماء کرام نے۔
اگر آج ہم نے اپنی ماضی کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا۔ اپنی عوام اہلسنت کے خون علمائے کرام کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا۔ مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی گرفتاری کو یاد نہیں کیا۔ قاضی احسان احمد شجاع آبادی کی کوششوں کو یاد نہیں کیا۔ مولانا جالندھری ہو ہونے والے ظلم کو یاد نہیں کیا۔ سید ابوالحسنات کی قید وبند کو یاد نہیں کیا۔ مولانا لال حسین اختر جیسے مرد سپاس کو یاد نہیں کیا۔ مولانا یوسف بنوری جیسے علماء کرام کی خدمات کو یاد نہیں کیا۔ علامہ صاحبزادہ افتخار الحان کی گرفتاری کو یاد نہیں کیا۔ مولانا عبدالستار خان نیازی کی درناک داستان کو یاد نہیں کیا جو جیل کے اندر ان پر ظلم وستم ہوا اس کو یاد نہیں کیا علامہ غلام غوث ہزاروی کی اولاد کی قربانیوں کو یاد نہیں کیا۔ مولانا یوسف لدھیانوی کی شہادت کو یاد نہیں کیا۔ علامہ انور شاہ کشمیری کو ہم نے بلا دیا۔ خواجہ محمد ابراہیم کی کوششوں کو پس پشت ڈال دیا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کی قدر نہیں کی۔ حضرت شاہ صافی سلیمان کو بلادیا۔ حضرت میاں میر شرقپوری کی خدمات کو نہیں پڑھا۔ مولانا سید شمس الدین کی شہادت کی قدر نا کی۔ خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی کی قربانیقں کو رائے گاں جانے دیا۔ مولانا عتیق الرحمن چنیوٹی کی عظیم قربانیوں کو اوراقوں میں دفن کردیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کو بلادیا۔ مولانا مودودی کی کاوشوں کو بلایا ۔۔مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیری کو بلادیا۔ مولانا تاج محمود پر ہونے والے ظلم وجبر کو بھول بیٹھے۔ محبوب علی شمسی (شیعہ) کی قربانیوں کو بھول گئے۔ مولانا کفایت حسین اور جعفر حسین شیعہ کو ہم نے کافر کہہ کر ٹھکرادیا۔ قائد انقلاب امام شاہ احمد نورانی کی عظیم قربانیوں کی قدر نہیں کی۔۔۔۔۔ تو یاد رکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دن نہ آئے کہ پھر آپ کو خون میں لت پت ہونا پڑے۔ شہروں کی دیواریں خون سے رنگین ہوجائیں۔ ملک خدادا د پر مکمل قادیانی قابض ہوجائیں۔ اپنے اپنے امیر اپنے اپنے قائد سب کو مبارک مگر اس وقت وہ وقت نہیں کہ ہر کوئی اپنا قائد لے کر نکلے اگر مولانا نورانی دیوبندی عالم کو تحریک تحفظ ختم نبوت کا امیر مقرر کرسکتا ہے۔ اگر مولانا نورانی شیعہ عالم مولانا شمسی کا نائب امیر مقرر کرسکتا ہے۔ اگر جنرل سیکریٹری علمائے اہلسنت اور علمائے اہلحدیث میں سے کسی کو رکھ سکتا ہے تو وہ جزبہ آپ کو پیدا کرنا ہوگا قربانی دینی ہوگی ورنہ اللہ نا کرے آگے علماء کرام کا مکمل کردار ختم کرنے کا منصوبہ چل رہا ہے۔ صدارتی نظام لایا جائے گا جس میں ووٹ جیتنا بہت مشکل کام ہے چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بناکر۔ آپ کو اتحاد کرنا پڑے گا۔ شاہ احمد نورانی جیسا نا کوئی سیدہ عائشہ صدیقہ سلام اللہ علیہا سے محبت کرنے والا ہوگا۔ نا ہی مولنا شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسا کوئی امیر معاویہ کا داعی ہوگا۔ نا ہی کوئی علمائے اہلسنت جیسا مولا علی کا محب ہوگا۔ نا ہی کوئی علمائے دیوبند جیسا کٹر حنفی ہوگا۔ وہ سب حالات کو سمجھ گئے اور متفقہ تعریف بھی شائع کروائی۔ آج پھر ہمیں ایک ہونا پڑے گا۔۔۔۔
اللہ پاک اس وطن عظیم کا حامی وناصر ہو۔ اللہ پاک تحریکی ختم نبوت کے مجاہدین کے درجات بلند فرمائے ۔ جس جس نے غداری کی کی آپ کے سامنے ذلیل ہوا۔ اور جلد ان شاءاللہ تعالیٰ عزوجل جو کو غدار ہے ذلیل اور رسوا ہوگا۔